برطانوی عوام کا یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں ووٹ
لندن،24جون(ایس اونیوز/آئی این ایس انڈیا)برطانیہ میں جمعرات کے روز ہونے والے ریفرنڈم میں عوام نے ایک نئی تاریخ رقم کرتے ہوئے یورپی یونین اور برطانیہ کے درمیان 43سالہ رفاقت ختم کرتے ہوئے ملک کو یونین سے علاحدہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔برطانیہ کی تاریخ میں جہاں اس کے یورپی یونین میں شمولیت کے فیصلے کے داخلی اور خارجی سطح پر اثرات مرتب ہوئے تھے اسی طرح اب علاحدگی کے بھی کئی مثبت اور منفی مضمرات سامنے آئیں گے۔کل جمعرات کو ہونے والے ریفرنڈم کے نتائج کے مطابق 51.9 فی صد عوام نے برطانیہ کی یورپی یونین سے علاحدگی کے حق میں جب کہ 48.1نے علاحدگی کی مخالفت میں رائے دی۔شمال مشرقی انگلینڈ، ویلز اور مڈلینڈز میں زیادہ تر ووٹر یورپی یونین سے الگ ہونے کے حامی نظر آئے جبکہ لندن، سکاٹ لینڈ اور شمالی آئرلینڈ کے زیادہ تر ووٹروں نے یورپی یونین کے ساتھ رہنے کے حق میں ووٹ دیا۔برطانیہ میں ہونے والے ریفرنڈم اور اس کے نتائج کا فوری اثر یورپی اسٹاک مارکیٹ پر پڑا ہے اور آسٹریلوی پاؤنڈ سنہ 1985ء کے بعد ڈالر کے مقابلے میں نچلی ترین سطح پرآگیا ہے۔ آسٹریلوی پاؤنڈ جاپانی ین سے قیمت میں 14 فی صد زیادہ مالیت رکھتا ہے۔برطانیہ کے یورپی یونین سے علاحدگی کے فیصلے کے ساتھ ہی اس کے ملک کی اندرونی اور بیرونی پالیسیوں پربھی اثرات مرتب ہوں گے۔ اسی فیصلے کے جلو میں برطانیہ کی فریڈم پارٹییو کیپ ے سربراہ نائگل واراگ نے جمعہ کے روز ایک بیان میں ملک میں فوری طورپریورپی یونین سے علاحدہ حکومت یا بریک سیٹ حکومت کے قیام کا مطالبہ کیا ہے۔مسٹر واراگ جنہوں نے برطانیہ کی یورپی یونین سے علاحدگی کے حق میں پوری شدو مدت کے ساتھ مہم چلائی تھی نے کہا کہ ان وقت آگیا ہے کہ ہم یونین سے علاحدگی کی حکومت قائم کریں۔ ادھر اسکاٹ لینڈ کی خاتون وزیراعظم نے کہا ہے کہ انہیں اپنے ملک کا مستقبل یورپی یونین کے اندر ہی دکھائی دیتا ہے۔ہالینڈ کے اپوزیشن رہ نما خیرت فیلڈرز نے کہا ہے کہ ہمیں بھی برطانیہ کی طرز پریورپی یونین سے علاحدگی کے فیصلے کے لیے عوامی ریفرنڈم کے انعقاد کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ اپنے ملک کے مالی امور، سرحدوں کے معاملات اور ایمی گریشن پالیسیاں ہم خود طے کریں۔فرانسیسی وزیرخارجہ مارک آئرولٹ نے ٹوئٹر پر ایک مختصر بیان میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ انہیں برطانیہ کے یورپی یونین سے علاحدگی کے فیصلے پر افسوس ہے۔ انہوں نے یورپی سیاسی قیادت پر زور دیا کہ وہ اقوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیے فوری اور موثر اقدامات کریں۔آئرولٹ کا کہنا تھا کہ برطانوی اخراج کے بعد بھی یورپی یونین قائم رہے گی مگر میں یونین کی قیادت سے مطالبہ کروں گا کہ وہ رکن ممالک کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے کوششیں تیز کریں۔فرانس کی دائیں بازو کی جماعت نیشنل فرنٹ نے یورپی یونین سے علاحدگی کے حق میں ریفرنڈم کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ نیشنل فرنٹ کے نائب صدر فلوریان فیلیپو نے کہا کہ اقوام کی آزادی آخر کار کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہے۔جرمن وزیرخارجہ فرانک والٹر شٹائنمیر نے بھی برطانیہ کی یورپی یونین سے علاحدگی پر افسوس کا اظہار کیا۔امریکی وائیٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کردہ رد عمل میں کہا گیا ہے کہ صدر باراک اوباما برطانیہ کی پورپی یونین سے علاحدگی کے فیصلے کے نتائج کا باریک بینی سے جائزہ لے رہے ہیں۔ صدر اوباما اگلے چوبیس گھنٹوں میں برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون سے اس حوالے سے بات چیت بھی کریں گے۔بیلجیم کے وزیراعظم نے یورپی یونین کے کردار کو فعال بنانے کے لیے یونی کی قیادت کا فوری اجلاس بلانے پر زور دیا ہے جبکہ ناروے کی خاتون وزیراعظم کا کہنا ہے کہ برطانوی عوام کی اکثریت اور خود یورپی یونین برطانیہ کی علاحدگی سے خوش نہیں ہیں۔برطانیہ یورپی یونین کو الوداع کہنے والا پہلا ملک بن جائے گا تاہم علیحدگی کے حق میں ووٹ کا مطلب برطانیہ کا یورپی یونین سے فوری اخراج نہیں ہے۔ اس عمل میں کم از کم دو برس کا عرصہ لگ سکتا ہے۔